Saturday 2 February 2019

سپارہ نمبر 23 وَمَالِیَ (مختصر مضامین)

أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ.

بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.

1- قیامت کے دن ہاتھ اور پاؤں گواہی دیں گے

اللّٰہ تعالیٰ قیامت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس دن ہم مجرموں کے منہ پر مہر لگا دیں گے۔انہوں نے دنیا میں جو بد اعمالیاں کی ہونگی، تب اللہ تعالیٰ ہاتھ اور پیر کو حکم دیں گے کہ تم بتاؤ کہ اس نے یہ عمل کیا ہے یا نہیں؟ تو انکے ہاتھ اور پیر اللہ کے حضور میں سب کچھ سچ سچ بتادیں گے۔ پھر مجرموں کو کوئی راہ فرار نہ مل سکے گی۔

2- اہل جنت دنیاوی زندگی کا ذکر کریں گے
 
رب العزت بیان فرماتا ہے کہ اہل جنت ایک دوسرے سے دنیا کے بابت بات کریں گے ایک کہے گا میرا ایک دوست تھا حیات بعد از موت کا یقین نہیں رکھتا تھا۔ حق تعالیٰ فرمائے گا کیا تم اس کو دیکھو گے۔ لہٰذا جب وہ دوزخ میں جھانک کر دیکھے گا تو اس کا دوست جہنم کے درمیان میں جل رہا ہوگا۔  یہ بولے گا کہ قریب تھاکہ میں بھی گمراہ ہو جاتا  مگر اللہ ربّ العالمین نے اپنے فضل سے مجھے بچالیا۔

3- حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی کے ہمراہ عراق سے ہجرت کرکے ملک شام جارہے تھے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے ایک صالح اولاد کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چھیاسی برسں کی عمر میں آپکی بیوی حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام عطا فرمائے۔  پھر تینوں مکہ تشریف لے آئے۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام بڑے ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آٹھ ذوالحجہ کو خواب میں دیکھا کہ آپ کو بیٹا ذبح کرنے کا حکم ہوا ہے۔ یہی خواب آپ نے لگاتار تین راتوں میں دیکھا اور آخر کار دس ذوالحجہ  کو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مشورہ کیا کہ خواب میں حکم ہوا ہے کہ راہِ خدا میں تجھے ذبح کردوں۔تیری کیا رائے ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا آپ حکم الٰہی کی تعمیل کریں انشاء اللہ مجھے صابر پائیں گے۔ آپ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لےکر کعبہ کے نزدیک مروہ کے مقام پر پہنچ گئے اور بیٹے کو زمین پر لٹا دیا اور چھری چلائی۔ تو غیب سے ندا آئی کہ اے ابراہیم ! علیہ السلام تو نے اپنا خواب سچا کردکھایا، یہ تمھارا امتحان تھا  اللہ تعالیٰ نے ایک ذبیحہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ بھیج دیا اور آنے والی امتوں کے لئے یہ عمل جاری کردیا ۔

4- حضرت داؤد علیہ السلام کا مشہور فیصلہ

حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنا دستور العمل (ٹائم ٹیبل) بنا رکھا تھا، ایک روز صرف عبادت کرتے، ایک روز مقدمات کا فیصلہ کر تے۔ ایک روز وعظ دیتے اور ایک روز گھر کے کام نپٹاتے۔ اور رات دن کے چوبیس گھنٹوں کو اپنے گھر والوں پر اس طرح تقسیم کر رکھا تھا کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی انکے گھر میں عبادت میں مشغول ہوتا۔ ایک دفعہ بارگاہِ الٰہی میں اپنے اسی حسنِ انتظام  کو عرض کیا تو اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ بات پسند نہ آئی۔ اللہ نے ان کو آزمانے کے لئے دو فرشتے بھیجے جو سخت پہرے داروں کے باوجود ان کے پاس پہنچ گئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا ایک نے کہا میرے بھائی کے پاس نناوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے۔ وہ مجھ سے ایک دنبی چھیننا چاہتا ہے، اور وہ بات چیت میں بھی بہت تیز ہے۔  حضرت داؤد علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ وہ تیری دنبی چھین کر تجھ پر ظلم کرے گا، مگر ایماندار لوگ ایسا کام نہیں کرتے۔ فیصلہ کرنے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام نے سوچا کہ میرا جو وقت  آج عبادت الہٰی کے لئے مخصوص تھا مقدمہ کا فیصلہ کر نے میں ضائع ہوگیا۔ پھر سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی اور اللہ کی توفیق کے بغیر میں اس کی عبادت نہیں کرسکتا۔ پس سجدے میں گر کر اللہ سے معافی مانگی۔اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی۔

(سورۂ یسین، سورۂ الصفت، سورۂ ص، سورۂ الزمر)

No comments:

Post a Comment